Khoj, Institute of Punjabi and Cultural Studies, PU - Lahore

کھوج

Institute of Punjabi & Cultural Studies, Punjab University, Lahore
ISSN (print): 1992-6545
ISSN (online): 1992-6545
References

* ڈائریکٹر جنرل امریکن فارن سروسز، نیویارک

-1 آپ اپنی کتاب ’’ہیر رانجھا‘‘ میں لکھتے ہیں: 

تیراں سے تے پندراں ہجری، جدوں ایہ ربا عیاں آئیاں نی

موضع پنجنی بیٹھ کے نظم کیتی جتھے بہت کماں پہیڑاں پائیاں نی

 داہے چھ تے اٹھ ہے عمر گذری، ہو ئیاں ہمتاں وچ خطائیاں نی

سبھ شرم محمدا پیر نوں جیئو، جیندے کرم اُوتے آساں لائیاں نی

’’تمام شد فرمائش فرزند مخدوم صاحب لنگر شریف کہ اسم شریف ایشاں پرسیدہ نہ شدہ بتاریخ 19 ربیع الاول 1315 ہجری مطابق 18 اگست بروز بدھ 1897ء۔ حضرت میاں صاحب کی کتب اور اُن کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہمارے اُستاذ جناب سید محمود شاہ صاحب دامت برکاتہم نے مذکورہ اشعار کی روشنی میں آپ کی تاریخ پیدائش کا سال 1831ء قرار دیا ہے۔ علاقہ کھڑی کی تاریخ کے لئے ملاخطہ ہو۔ 

Tazkra Muqimi, Qalmi Nuskha Mamlooka Ghulam Ghous Shah, 99.

-2 بشیر مہدی ’’صاحب سیف الملوک کے آثار و افکار‘‘ پر مقالہ پاکستان فلاسفیکل کانگریس اجلاس منعقدہ لاہور اپریل 1985 میں پڑھ کر سنایا گیا اور بعد ازاں اس کا خلاصہ’’المعارف‘‘ لاہور میں شائع ہوا۔ 

راقم الحروف نے مذکورہ بالا مقالہ میں لکھا تھا کہ جناب میاں صاحب نے اشعار 467-463 میں سیف الملوک کی تکمیل اور اپنی عمر کی جانب یوں اشارہ کیا ہے:

سنہ مقدس ہجری دساں، باراں سے ست دا ہے

ست اوتے دو ہور محمد‘ اوپر اُوس تھیں آہے

ماہ رمضان مبارک اندر وقت بہار گلابی

سفر العشق مکائی مولیٰ، ہووس فضل جنابی

عمر مصنف دی تد آہی، تِن داہے تِن یکے

پہین وڈی فرماندی ایہو، پتے رب نوں پکے

جہلم گہاٹوں پربت پاسے میر پور تہیں دکہن

کہڑی ملک وچ لوڑن جہیڑے طلب بندے دی رکہن

Mian Muhammad Bakhash- Saif-ul-Malook (Lahore: Matba Mustafai, 1865)21-

پنجابی کے مشہور دانش ور سبط الحسن ضیغم ’’تدوین سیف الملوک‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’ میاں صاحب نے اپنی عظیم تخلیق ’’سیف الملوک‘‘ میں اپنے سال پیدائش کے بارے میں اشارہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود بیشتر لکھنے والوں نے اس سلسلہ میں تحقیق سے کام نہیں لیا۔‘‘ یہی شکایت ہمیں بھی اُن موصوف سے ہے کہ انہوں نے راقم الحروف کے مضمون سے استفادہ کرنے کے باوجود اس کا حوالہ تک نہیں دیا۔

اول توسبط الحسن نے مذکورہ اشعار ہی قطعی غلط لکھے ہیں۔ (تدوین سیف الملوک پیکجز لمیٹڈ لاہور۔ ستمبر 1993۔ صفحہ ’ث‘

ثانیاً یہ ہمارے مضمون محولہ بالا کی نقل ہے۔ اور اس سے جو نتایج آپ نے صفحہ ’’ج‘‘ پر درج کیے ہیں وہ ہمارے ہی الفاظ ہیں۔ آپ نے جو تاریخ پیدائش 1830ء نکالی ہے، وہ ٹھیک نہیں۔ حضرت میاں صاحب سے زیادہ اپنی عمر مبارک کے بارے میں کوئی دوسرا کیسے جان سکتا ہے ’’تدوین نو‘‘ کے مصنف نے جلد بازی میں اپنی کتاب کی کتابت کی اغلاط تک ٹھیک نہیں کیں اور سیف الملوک کی تکمیل کو 1863ء قرار دیا ہے (ایضاً۔صفحہ۔ خ)

3- Syed Aman Jaffri " Hazrat Mian Muhammad Bakhsh Sahib. Hayati Ty Shairi" Muqala Ph.D Ghair Matboa Punjab University Lahore 1980 Punjabi Section (T 89-1-91092-1363 M)

4- Malik Muhammad. Sawanh Hayat Mian Muhammad Bakhsh Sahib Dar Akhir "Saif-ul-Malook" Bar Awal Jehlum 1914, 450-452. Dr. Ghulam Hasan Azhar, Mian Muhammad Lahore 1980, 2

Shafi Aqeel. Punjabi ky 5 Qadeem Shair, Anjuman Taraqi Urdu Karachi 1970, 200. Mola Bakhsh Kushta, Punjabi Shairian Da Tazkara, Lahore, 1960, 198.

5۔ سبط الحسن ضیغم صاحب نے جہاں حضرت میاں محمد بخش صاحب کے خاندان کو فاروقی النسل ماننے سے انکار کیا ہے، وہیں اُن کے پو سوال گجر ہونے اور اور حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو مورث اعلی نہیں مانتے۔ جب پوسوال گجر ہی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی اولاد نہیں تو آپ کے پاس کیا ثبوت باقی رہ جاتا ہے کہ حضرت میاں صاحب اور اُن کا خاندان گجر تھے جب آپ فاروقی النسل ہونے کا ثبوت نہیں دے سکے اور نہ ہی آپ کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ فاروقی النسل نہیں تھے تو آپ کا یہ کہنا کہ ’’ میاں محمد بخش صاحب کے مورث اعلیٰ حضرت فاروق اعظم نہیں تھے اور نہ ہی پوسوال گوت کا دنیائے عرب سے کوئی رشتہ ہے۔۔۔ نہ ہی میاں صاحب کا گجروں کی چیپی گوت سے تعلق واسطہ ہے‘‘ (تدوین۔ ’’ق‘‘) تو کوئی اُن سے پوچھے کہ’’ متذکرہ بالا‘‘ گفتگو میں کہاں سے آپ نے ثابت کیا کہ حضرت میاں صاحب فاروقی النسل نہیں تھے۔

حقیقت یہ کہ سبط الحسن ضیغم صاحب اپنا نسلی تفاخر و عصیبت چھپا نہیں سکے، نواب سندھی خان اور مسمات مکوں کے واقعات کے ضمن میں جب ملک محمد صاحب سوانخ نگار حضرت میاں صاحب نے حضرت میاں صاحب کے چہرہ مبارک سے جلالیت کے آثارمحسوس کیے تو اسے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی مناسبت سے ’’رگ فاروقی‘‘ لکھا (’’سیف الملوک ایڈیشن 1914 صفحہ 481) جس پر سبط الحسن ضیغم خوش نہیں ہوئے۔ حقیقت بات یہ ہے کہ جب تک آپ کے لیے ’’گجر‘‘ ہونا ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک ملک محمد صاحب کی تحقیق کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ سبط الحسن صاحب نے نہ صرف میاں محمد بخش صاحب بلکہ آپ کے مرشد حضرت سید پیر شاہ غازی قلندر رضی اللہ عنہ کے آبائو اجداد کو غیر مسلم اور ہندوئوں کی اولاد قرار دے دیا اور ذرا نہیں سوچا کہ حضرت میاں صاحب کا مرید اور شاگردِ خاص کس طرح یہ جھوٹ اپنے مرشد سے منسوب کر سکتا تھا۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب جو صاحب حال ولی اللہ تھے انہوں نے حضرت پیر شاہ قلندر غازی رحمتہ اللہ علیہ کو جب آل رسول قرار دیا ہو تو کسی اور کی کیا مجال رہ جاتی ہے کہ اس سے انکار کرے۔ ملک محمد جہلمی ایک اور جگہ موضع چکڑالی کے صاحب زادہ عبدالحکیم صاحب ولی کامل و غوث روزگار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ بزرگ خاندان قوم گکھڑ سے ہیں (ایضا482-) مزید لکھتے ہیں کہ حضرت میاں محمد صاحب قبلہ کے پڑدادا مرشد حضرت حاجی صاحب بگا شیر درکالی خاندان گکھڑے سے تھے اسی وجہ سے آپ کو راجہ محمد خان صاحب کی طرف سے خاص نظر عنایت تھی۔ حضرت حاجی صاحب عرف بگا شیر کا اصلی نام مبارک مرید خان ہے‘‘ (ایضا484-) مذکورہ بالا بحث سے مترشع ہوتا ہے کہ ملک محمد جہلمی صاحب نے کوئی بات بلا تحقیق نہیں لکھی اور اپنے مرشد صادق حضرت میاں محمد بخش صاحب سے جو کچھ سنا، سوانح میں لکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر علمی فرو گزاشتوں کے باوجود ہم نے ملک محمد جہلمی صاحب کو ایک مستند ماخذ کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔

6- Sibat ul Hasan, Saif-ul-Malook (Tadven-e-No) "ص"

7- As Above, P.ر۔ش

8- As Above, P. ث

9۔ حضرت قاضی سلطان محمود آدانی (ملفوظات) موئف نواب معشوق یار جنگ کمشنر حیدر آباد دکن۔ حاشیہ مولوی برکت علی شہید، جہلم۔ (مطبوعہ استقلال پریس لاہور) 1964۔ صفحہ 31 پر شجرہ نسب ہے۔ حضرت پیر شاہ غازی کا تذکرہ صفحہ 42تا 48

10- Sibat ul Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, P. ق ۔ ث

11۔ ملک محمد ٹھیکدار (سوانح عمری حضرت میاں محمد صاحب) ’’سیف الملوک‘‘ سراج المطابع جہلم 1914 از صفحات 449تا 521۔ ملک صاحب نے بھی بابا دین محمد صاحب کو حضرت میاں صاحب کا پڑ دادا لکھا ہے (صفحہ نمبر 450) جو کہ یقینا غلط فہمی ہے۔ یہاں سوال اُبھرتا ہے کہ اگر ملک محمد ٹھیکیدار نے میاں صاحب کے پڑدادا کا نام غلط لکھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ملک محمد صاحب نے خود تذکرہ مقیمی کا ترجمہ ’’بوستان قلندری‘‘ کے نام سے کیا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ بابا دین محمد صاحب حضرت میاں صاحب کے پڑدادا نہیں تھے۔ بر عکس اس کے مولوی محبوب علی صاحب مرحوم (2نومبر 1910تا 20 جنوری 1985) نے اپنی محنت و کاوش سے بے شمار معلومات حضرت میاں صاحب کے بارے میں دی ہیں یہاں تک کہ حضرت میاں صاحب کی نماز جنازہ کی تفصیل دیتے لکھا ہے کہ حافظ مطیع اللہ صاحب سموال شریف(جو حضرت میاں صاحب کے استاد گرامی کے فرزند، بڑے جید عالم تھے۔ مولوی صاحب نے بچشم خود اُن کی زیارت بھی کی) نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

مولوی محبوب علی فقیر۔ سیف الملوک (سوانح حضرت میاں محمد صاحب) مطبوعہ ملک غلام نوراینڈ سنز جہلم۔ سن نامعلوم۔ از صفحہ 501تا 543) مولوی محبوب علی مرحوم سے شیخ محترم محمود شاہ صاحب کی ملاقات 1934 میں ہوئی تھی۔ آپ کے بڑے بھائی غلام غوث شاہ صاحب سجادہ نشین دربار کھڑی شریف سے مولوی صاحب کے مراسم 1933سے تھے جب وہ تھانہ دینہ میں پولیس آفیسر تھے۔ مولوی محبوب علی صاحب اس حلقہ میں پٹواری تھے؛ اپنی تدوین کردہ سیف الملوک کے آخر میں کئی مقامات پر حضرت سید غلام غوث شاہ کا ذکر مبارک ہے۔ راقم الحروف نے اپنے شیخ محترم کے ہمراہ کئی بار مولوی صاحب مذکور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔

12- Molvi Mehboob Ali Sawanh-e-Umri, P.539

13- As Above, P.505

14۔ میاں محمد بخش صاحب مثنو ی نیرنگ عشق، مطبوعہ جہلم 1964صفحہ 10۔سائیں شاہ غلام محمد صاحب بن غلام مصطفی صاحب بن چودھری درویش رحمت اللہ تعالی، وصال یکم ذیقعد بروز ہفتہ 274 ہجری مطابق 12جون 1888۔ مثنوی نیرنگ عشق صف 11

15- Malik Muhammad Thekadar. Sawanh-e-Umri Mazkura. 454.

16۔ شاہ گل حسن صاحب مرتب ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ طبع قدیم دہلی، سنہ ندارد۔ صفحہ 129۔ حضرت میاں صاحب نے یہ ملاقات یقینا اپنی جوانی میں کی ہو گی۔ آپ نے سیف الملوک 1863میں مکمل کی۔ جبکہ 1862 میں حضرت سید احمد ولی کا وصال ہو گیا۔ دیپاچہ ’’سیف الملوک‘‘ کے ابتدائی 691اشعار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے کیے کیسے صاحبان کمال سے روحانی استفادہ کیا ہوگا۔

17۔ میاں محمد بخش صاحب، سوہنی میہنوال، مطبوعہ جہلم، 1964، صفحہ 15۔حضرت میاں صاحب کے والد گرامی میاں شمس الدین بھی اپنے وقت کے بلند پایہ عالم تھے اور روحانیت میں صاحب کمال بزرگ تھے۔ بوجہ علمی ذوق و شوق ’’در حالت طفلی درویشانہ ازخانہ آوارہ شدہ، برائے تحصیل علم در شہر گجرات آمدند‘‘ (تذکرہ مقیمی، قلمی نسخہ مملوکہ سید غلام غوث شاہ صاحب برادر زادہ سید محمود شاہ صاحب، برگ 144) ثابت ہوا کہ اس وقت گجرات درس و تدریس میں اعلیٰ مقام رکھتا تھا اور یہاں فاضل اجل بزرگان دین اور دیگر تشنگان علم آیا کرتے تھے۔ میاں شمس الدین صاحب نے علم شریعت و طریقت میں اس قدر عبور حاصل کیا کہ حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی جیسے نادر روزگار عالم آپ کو ملنے آتے اور گھنٹوں علمی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ (تذکرہ مقیمی برگ 163الف) حضرت میاں شمس الدین نے 1264ھ مطابق 1848 میں رحلت فرمائی حضرت میاں صاحب نے آپ کی تاریخ وفات یوں بیان فرمائی ہے۔

’’رفت با اوج ابد

شمس دنیا و دین 1264ھ‘‘

حضرت میاں صاحب مزید لکھتے ہیں کہ بوقت رحلت آپ نے فرمایا: ’’مرا اولیائی و دانائی ہر دو عنایت کردہ بودند و من بکار دنیا دانائی را خرج نمودہ ام نہ اولیائی را‘‘ (ایضاً برگ 165)

18۔ ملک محمد صاحب ایضاً صفحہ 460ملک صاحب 17-16 سالہ نوجوان تھے جب حضرت میاں صاحب کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ ملک صاحب پیشہ ور ادیب یا سوانح نگار نہ تھے۔ نہ ہی انہوں نے مربوط سوانح اپنے مرشد کی مرتب کی اس کے باوجود یہ ایک مستند دستاویز ہے اور ہم نے اس کے متن پر جُزوی طور پر اعتماد کیا ہے اور جہاں درستی کی ضرورت تھی اسے واضع کر دیا ہے۔ میاں صاحب کے شب و روز عبادات و ریاضت، خوراک، حتی کہ مختلف اوقات میں آپ کے اسفار، ہم عصر بزرگان سے ملاقاتیں اور بیماری کی معلومات بھی ملک صاحب نے دی ہیں۔ حضرت میاں صاحب کے باورچی سائیں کھیوا کے بارے میں بھی صرف اسی سوانح سے علم ہوتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سوانح کتنی مستند ہے لیکن بہرحال نادانستہ غلطی کا امکان ہر جگہ ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر غلام حسین اظہر نے آپ کے آثار و افکار پر جو کچھ لکھا اس کا بیشتر حصہ محل نظر ہے۔ مثلا ’’سیف الملوک‘‘ کے پہلے شعر کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’یہ سوکھا باغ وہ معاشرہ ہے جس کی توانائیوں کو آکاس بیل کی طرح مہاجنی جاگیردارانہ اور آمرانہ نظام نے چوس لیا تھا اور وہ خزاں زدہ باغ کا منظر پیش کر رہا تھا‘‘۔ (ڈاکٹر غلام حسین اظہر،’’میاں محمد‘‘ پبلشرز کتب مینار لاہور1980) اگر ڈاکٹر صاحب ملک محمد صاحب کی لکھی ہوئی سوانح کا مطالعہ فرما لیتے تو اتنی بڑی تشریحی غلطی کے مرتکب نہ ہوتے۔

19۔ ملک محمد جہلمی، سوانح صف521۔ 1914 کے ’’سیف الملوک‘‘ کے ایڈیشن کے اخیر صفحہ 522 پر اپنی تقریظ میں قاضی عطا محمد صاحب نائیب تحصیل دار جہلم رقمطراز ہیں کہ ’’جو کچھ میاں ملک محمد صاحب ٹھیکدار نے مشتے نمونہ از خروار ے لکھا، بہت صحیح اور بے کم، کاست تحریر کیا۔ صرف ملک صاحب کو ہی ان کی معلومات نہیں، بلکہ ہزاروں لوگ جو حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے، ان درج شدہ حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ حضرت میاں صاحب جہاں کہیں کسی درویش یا عالم کا سنتے، ضرور ملنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت قاضی سلطان محمود اعانی سے ذاتی مراسم تھے۔ حضرت پیر جماعت علی شاہ محدث علی پور نے ملک محمد جہلمی صاحب کوایک مرتبہ یہ فرمایا کہ ایک ہندو صرف حضرت میاں صاحب کی کتاب سیف المولک پڑھ کر اس کی تاثیر سے مسلمان ہو گیا تھا (ایضاً صفحہ 456) مشہور مجذوب حضرت سائیں جنگو شاہ سے بھی حضرت میاں صاحب نے ملاقات کی جن کا ذکر خیر حضرت غوث علی شاہ صاحب قلندر پانی پتی رضی اللہ عنہ صاحب ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ نے کیا ہے اور اُن کو ’’ابدال وقت‘‘ قرار دیا ہے۔ ملک محمد ٹھکیدار جہلم کی وفات 28مئی 1923ء مطابق11شوال 1341ہجری بروز سوموار ہوئی (ذاتی ڈائیری حضرت علی اکبر شاہ صاحب مرید حضرت میاں محمد بخش صاحب، صفحہ 105) ملک صاحب مرحوم اور سید علی اکبر شاہ صاحب دونوں بزرگ قریباً ہم عمر تھے۔ جناب علی اکبر شاہ صاحب 1863میں پیدا ہوئے 15سال کی عمر میں جناب میاں محمد صاحب سے سیف الملوک پڑھنی شروع کی جبکہ ملک صاحب مرحوم نے بھی پندرہ سولہ سال کی عمر میں میاں صاحب سے ملاقات کی۔

20۔ پاکٹ ڈائری، علی اکبر شاہ صاحب ایضاً صفحہ 105 سید علی اکبر شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ انہوں نے سیف الملوک مصنف رحمتہ اللہ علیہ سے 1877سے 1896 تک پڑھی ’’اکتوبر 1896ء میں پنجنی شریف میں حاضر خدمت ہوا، تمباکو نوشی چھوڑ دی اور نومبر 1901 میں سرکاری نوکری (ڈاکٹر حیوانات) چھوڑ دی اور 18دسمبر1901 بوسیلہ جناب قاضی صاحب اعوان شریف حاضر خدمت (حضرت میاں محمد صاحب) ہوا اور بیعت کر لی‘‘ (ایضاً۔ صفحہ 105) جناب علی اکبر شاہ صاحب 19جنوری 1924میں فوت ہوئے، آپ نے اپنی تاریخ پیدائش 5جنوری 1863لکھی ہے۔ صرف 14-15سال کی عمر میں حضرت میاں محمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اپریل 1888میں لاہور امتحان وٹیرنری ڈاکٹر پاس کیا اور 13مئی 1888 سے نومبر 1901 تک پنڈ داون خان میں سرکاری ملازمت کی اور تمام زندگی حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔ (ایضاً۔ ڈائری 114-84)

ہمارے پاس ایڈیشن اول 1865کے صفحہ اول پر جناب سید علی اکبر شاہ صاحب کے دست خط ہیں یہ وہی نسخہ مطبوعہ جو خود مصنف نے آنجناب کو دیا تھا۔

21۔ سبط الحسن ضیغم، تدوین نو سیف الملوک صفحہ 11، سبط الحسن صاحب نے سوائے نسب حضرت میاں صاحب، یا تفصیل سوانح پیر شاہ غازی قلندر، باقی تمام واقعات من و عن ملک محمد جہلمی صاحب سے مستعار لیے ہیں۔

22۔ بشیر مہدی، ’’صاحبِ سیف الملوک کے آثار و افکار‘‘ المعارف، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور مارچ اپریل 1988ء، صفحہ 112-103، یہ مقالہ پاکستان فلاسفیکل کانگریس اجلاس منعقدہ لاہور 1985ء میں پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ المعارف نے اس مضمون کی بیشتر تحقیقی تنقیدات کو حذف کر دیا۔

23- Malik Muhammad Jehulmi, Saif-ul-Malook, Edition 1914, Mazkura. 518-519

24- Sibat ul Hasan, Saif-ul-Malook (Tadven-e-No), P. ر۔ب 

25- Malik Muhammad Jehulmi, 520

26۔ حافظ قادر بخش صاحب مرحوم و مغفور میاں صاحب کے مریدین میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ آپ کی تاریخ پیدائش کا علم نہیں ہو سکا۔ آپ کی وفات 29اکتوبر 1918ء میں ہوئی اور آپ بمقام دھنی ضلع گجرات اپنے گائوں میں مدفون ہوئے۔ مقامی قبرستان میں آپ کی قبر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کتبہ لگا ہوا ہے، ان کے صاحب زادے حافظ کرم داد صاحب 1885ء میں پیدا ہوئے، سال کا علم نہیں ہو سکا ان کی وفات 6اپریل 1978میں ہوئی اور اپنے والد بزرگوار کے پہلو میں دفن ہوئے۔ قبروں کی زبوں حالی بتاتی ہے کہ پس ماندگان نے ادھر کا رخ تک کبھی نہیں کیا۔ حافظ کرم داد صاحب نے پہلی شادی 1910ء میں کی جس سے سید بیگم اور رحم داد صاحب پیدا ہوئے۔ رحم داد صاحب کی تاریخ پیدائش یکم اگست 1911ئہے دوسری شادی سے عبدالعزیز، محمد بشیر اور غلام غوث پیدا ہوئے، رحم دادا صاحب سے آپ کے پانچ صاحب زادے ہیں جن میں سے ہماری ملاقات محمد مشتاق صاحب سے ہو چکی ہے۔ جناب رحم داد صاحب سے بھی راقم الحروف متعدد بار ملا۔ میرے شیخ محترم سید محمود شاہ صاحب سے آپ کی خط و کتابت بھی تھی اور خطوط میں راقم الحروف کا ذکر بھی آپ نے نہایت محبت سے کیا ہے۔ اُن دنوں ہم سیف الملوک پر کام کر رہے تھے سیف الملوک کا قدیم ترین ایڈیشن جو حضرت سید محمود شاہ کو اپنے والد محترم اور مرید خاص علی اکبر شاہ صاحب سے ملا تھا۔ راقم الحروف نے اسکی مکمل فوٹوز لی تھیں جو ابھی تک محفوظ ہیں۔ اسی نسخہ سے حافظ قادر بخش صاحب نے بھی حضرت میاں صاحب سے سبقاً سبقاً تعلیم لی تھی۔ اس نسخہ کو حضرت شیخ محترم نے خود جلد کیا اور اس کے بارے میں جو نوٹس لکھے وہ تاحال اس نسخہ کے اول آخر موجود ہیں۔ 

1865ء کا یہ پہلا ایڈیشن ہمارے شیخ محترم سید محمود شاہ صاحب سے جناب رحم داد صاحب عاریتاً مانگ کر لے گئے تھے اس وقت راقم الحروف اپنی تعلیم کے سلسلہ میں امریکہ چلا آیا تھا۔ ابھی حال ہی میں ہم نے جناب مشتاق احمد صاحب (پسر رحم دادا صاحب مرحوم و مغفور) سے اُن کی رہائش گاہ واقع دُھنی ملاقات کی اور اس نسخہ کی واپسی کی درخواست کی جیسے آنجناب نے مسترد کر دیا۔

راقم الحروف نے اس نسخہ کے عکس فوٹوز بھی انہیں دکھلائے اور اپنا ریسرچ ورک بھی لیکن وہ نسخہ واپس کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس نسخہ کے ابتدائی اوراق اور بیشتر کئی دیگر ابواب موجود نہیں رہے حالانکہ ہمارے پاس اس کی مکمل کاپی موجود ہے۔ اس اولین ایڈیشن کے صفحہ نمبر 4 پر سید علی اکبر شاہ صاحب نے اپنے قلم سے لکھا ہے کہ یہ نسخہ انہیں مرشد صاحب نے عطا کیا (مرشد صاحب سے مراد حضرت میاں محمد بخش صاحب ہیں) اور 23فروری 1877کی تاریخ ثبت کی ہے اس نسخہ کے متعدد مقامات پر حضرت میاں صاحب کے شاگرد مرید قادر بخش صاحب کے بھی دست خط ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہ کتاب اُن کے مرشد گرامی کی تخلیق ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قدیم ترین ایڈیشن سیف الملوک ہے۔

27- Malvi Mehboob Ali Faqir. "Saif-ul-Malook" Sawanh-e-Umri. 541-542

28- "Saif-ul-Malook" Edition Awal (1865 ya Ma-Bad) Taba Mustafai Lahore Ba-Ehtemam Amir-ud-Din 12, Sher No. 256.

29- As Above, Sher No. 245

30- Sibat ul Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, P. الف ۔ د

31۔ یہ کتابچہ 1282ہجری میں مکمل ہوا جبکہ سیف الملوک 1273ہجری میں مکمل ہو چکی تھی ’’قصہ سخی خواص خان‘‘، مطبوعہ جہلم بار اول، 1964ء صفحہ 40۔ (قصہ سخی خواص خان کا مطبوعہ نسخہ 1875ء انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے)

’’دوہڑے بیت سی حرفیاں، غزل شجرے نہیں آوندا کجھ شمار ہے جی‘‘

آپ نے اپنی کتب کی یہی فہر ست اپنے ایک اور کتابچہ’’ مرزا صاحباں‘‘کے صفحہ 112پر بھی دی ہے۔ اور اس میں ’’سیف الملوک‘‘ کا ذکر فرمایا ہے۔

32- Saif-ul-Malook, Edition Awal, 370

33- Sibat ul Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, الف۔ ن

34- Sibat ul Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, الف۔ ن

35- Saif-ul-Malook, Edition Awal (1865) Mazkura, Title

36- Qissa Sakhi Khawas Khan, Matboa Jehlum Bar Awal 1964, 40

37- Qissa Sakhi Khawas Khan, 38

38- Hazrat Mian Muhammad Bakhsh, Sohni Mahinwal, Matboa Jehlum, Saan Nadarad, 15.

-39 اختر امان جعفری، مقالہ مذکور صفحہ 286 یہ تحقیق درست نہیں، انڈیا آفس لائبریری میں ’’قصہ شاہ منصور‘‘ مطبوعہ 1868مصنف ’’میاں محمد‘‘ موجود ہے۔ نمبر 1552۔VT۔ Library of India Office

40۔ ایضاً صفحہ 7 Vol.II,PartIII.byJ.F. Blumhardt, London 1902. [

علاوہ ازیں 1872اور 1874کے مطبوعہ نسخہ جات بھی ہیں۔ ایضاً صفحہ 16

41- Sibat ul Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, P. ر ۔ ج

42۔ قصہ سخی خواص خان مطبوعہ لاہور 1875ء، انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہے اس میں مصنف حضرت میاں صاحب کا نام گرامی صرف ’’محمد‘‘ لکھا ہے۔ اسی طرح ’’مرزاصاحباں‘‘ مطبوعہ لاہور 1874ء انڈیا آفس لائبریری کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس میں میاں صاحب کا نام گرامی محمد فقیر لکھا ہوا ہے قصہ شاہ منصور مطبوعہ 1868 نیز 1872 اور 1874 کے نسخہ جات انڈیا آفس میں موجود ہیں۔ ان میں حضرت میاں صاحب کا نام ’’میاں محمد‘‘ درج ہے جبکہ تحفہ میراں مطبوعہ لاہور 1879ء کا نسخہ اچھی حالت میں انڈیا آفس لائبریری موجود ہے۔ اس کے سرورق پر مصنف کا نام صرف ’’میاں صاحب‘‘ لکھا ہے۔ ’’سی حرفی‘‘ مطبوعہ 1872ء لاہور، جو صرف 16صفحات پر مشتمل ہے اس پر مصنف کا نام ’’محمد فقیر‘‘لکھا ہے۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب کی زندگی، آثار و افکار پر کام کرنے والوں کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ انڈیا آفس لائبریری کیٹلاگ مصنف J.F. Blumharadt کا ضرور مطالعہ کریں۔ اسی طرح ’’بیت میاں محمد‘‘ کے نام سے برٹش لائبریری لندن میں 16صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ موجود ہے جو 25اپریل 1868ء ’’درمطبع کوہ طور لاہور باہتمام نتھو رام طبع گردید‘‘ یہ کتابچہ1000کی تعداد میں چھپا، اس کے سرورق پر حضرت میاں صاحب کا نام ’’محمد‘‘ لکھا ہے۔ اِسی طرح ’’بیت سی حرفی از محمد فقیر‘‘ مطبع قادری لاہور 1881ء انڈیا آفس لائبریری نمبر{VT 1549(0)} میں موجود ہے جو آپ نے اپنے شاگرد رشید ملک محمد جہلمی سے انتساب کی ہے اس کے سرورق پر ایک رباعی اُردو میں حضرت میاں صاحب نے لکھی ہے، فارسی میں سرورق پر لکھا ہے ’’این ابیات از تصنیفات محمد فقیر جاروب کش حضرت پیر پیرا شاہ غازی قدس سرہ دمڑی والہ کہ سجادہ نشین الیشان میاں بہاول بخش صاحب است و این تصنیف و تحریر پاس خاطر ملک ‘‘، ’’بیت سی حرفی‘‘ کا آغاز یو ں ہوتا ہے:

’الف اُوٹھ اُوداس ہاں مین راول، کہڑے پاس سیئو گھر بار میرا

گل ٹل وجے نت کوچ والہ، پیاء ہونوندا بہار تیار میرا

کہل آلتہے اج لد جاناں، نہیں رہین دے نال قرار میرا

پھڑے ملک مہار محمدا جیؤ تاہیں مغرے پہنچ سی بیمار میرا‘

43- Hazrat Mian Muhammad Bakhsh Sahib, Fuqar Nama/ Gulzar Fuqar Matba Samdi, Bar Awal Sialkot 1290 Hijri, 31.

44- Hazrat Mian Muhammad Bakhsh Sahib Qissa Sheikh Sanaan, Matboa Islamia Press Jehlum, San Nadarad, 33

باراں سو چوہتر1274ھ آہے سن تاریخ لکھانواں

نام محمد شاعر سن داء عاجز شخص نتھانواں‘‘

45۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب تحفہ میراں مطبوعہ مطبع مصطفائی لاہور 1296ہجری کتاب کے سرورق پر مصنف کا نام گرامی ’’مولانا میاں صاحب ساکن خانقاہ پیرا شاہ غازی‘‘ حسب فرمائش ملک ساکن جہلم باہتمام امیر الدین، لکھا ہے وجہ تسمیہ کتاب اور تاریخ تصنیف کے بارے میں حضرت مصنف ‘‘ رقمطراز ہیں: 

ہندی وچ زبان مناقب لکھ کھڑی ول میراں 

اس نسخے داء نام اونہاں نے دہر یا تحفہ میراں

شالا تیرے محمد ولوں ایہ تحفہ اوس جائے

میں عاجز ول نظر کرم دی حضرت میرا پائے

سنہ مبارک ہجری آہا باراں سو چوہتر

جاں تصنیف محمد کیتا ایہ مبارک دفتر

آپ کے شاگرد ملک ساکن جہلم(ملک محمد صاحب ٹھیکدار جہلم) نے بھی فارسی میں تاریخ یوں لکھی ہے:

کرد تصنیف تحفہ میراں

سال طبعش بجسم ازدل و جاں

گفت ہاتف بصدق دل دانی

’’واہ کرامات شاہ گیلانی‘‘ 1274ھ

کتاب کے صفحہ آخر پر ’’بندہ ملک ساکن جہلم شاگرد مصنف‘‘ لکھا ہے اور کتاب کی اشاعت کی اجازت صرف امیر الدین مالک مطبع مصطفائی لاہور کو دی گئی ہے۔ (انڈیا آفس لائبریری لندن نمبر VT.1509(T) صفحہ 69-70) 1296ہجری مطابق 1879ء تک ملک محمد صاحب جہلمی نے متعدد بار حضرت میاں صاحب کی کتب کو شائع کروایا۔ 1865ء میں سیف الملوک کی اشاعت کے بعد مطبع امیر الدین سے جب بھی سیف الملوک کی پریس کاپی کو شائع کیا گیا اس پر ملک جہلم کا نام ملتا ہے انڈیا آفس لائبریری میں سیف الملوک کا 1869ء کا ایڈیشن موجود ہے۔ جس کے سرورق پر در صحت شریک شرف الدین و ملک ساکن جہلم لکھا ہے اور نسخہ کے صفحہ 370 حاشیہ میں بھی یہی دونوں نام ہیں۔ جبکہ یہ ایڈیشن اول کی پریس کاپی کی قریباً ہو بہو نقل ہے اور اس میں ایک شوشہ کی بھی صحت نہیں کی گئی سوائے سرورق کے اور ابتدائی دو صفحات کے عنوانات کے جن میں نہ جانے کس مصلحت کے تحت ترمیم و اضافہ کیا گیا۔

46- Hazrat Mian Muhammad Bakhsh Sahib Masnavi nerang Ishq Matboa Jehlum April 1964, 16

’’محمد جاں ہویا ایہ نسخہ تمام

سنو نیرنگ عشق اس دا کیتا نام

لکھاں تاریخ آساں تانہ ہو رنج

ستر  باراں  سَے1275ھ اُتے  ہور پنج‘‘

یہ کتاب محکمہ اوقاف کے آنے سے پہلے بسعی ٔ غلام غوث شاہ صاحب مرید و خلیفہ حضرت میاں صاحب کلید بردار دربار شریف نے پنجاب الیکٹرک پریس گجرات سے چھپوائی۔ طابع و ناشر ملک غلام نور اینڈ سنز تاجران کتب جہلم تھے۔

47۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب شریں فرہاد، جہلم 1978ء میاں صاحب نے کتاب کی تاریخ یوں برآمد کی ہے:

باراں سے چھہتر ہجری سن پچھان

ایہ تصنیف فقیر نے کیتی بیٹھ مکان

میاں سکندر صاحب نے اس کتاب کا کوئی ابتدائی مطبوعہ نسخہ استعمال کیا ہو گا، کیونکہ اس کا کوئی خطی نسخہ تاحال دستیاب نہیں ہو سکا ’’قصہ شریں فرہاد‘‘ کے الفاظ زیادہ تر پہاڑی یعنی پوٹھوہاری ہیں اس لیے جب تک الفاظ کو اُس زباں میں ادا نہ کیا جائے پورا لطف حاصل نہیں ہو گا؛ مثلاً پہاج، پہائی، پہکڑا ٹہل، کہڑے، کہٹاڑ، ٹہال، پہور، پہار، تہان، پَہلّا، پَہلا، کَتھا، وغیرہ

48۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب تحفہ رسولیہﷺ مطبوعہ آزاد کشمیر 1978ء تصحیح از مولوی محبوب علی مرحوم، ’’تحفہ رسولیہ‘‘ بھی برٹش لائبریری/انڈیا آفس، برٹش میوزیم کے کیٹلاگ پر موجود نہیں۔ بہرحال یہ کتاب 1288ھ مطابق 1871-72ء لاہور میں طبع ہوئی۔ اس کا ہمارے پاس قلمی نسخہ موجود ہے جو حضرت سید محمود شاہ صاحب نے اصل کتاب سے نقل کیا۔ اس کتاب میں کل 12445اشعار ہیں۔ حضرت میاں صاحب نے کتاب کی تاریخ یو ں بیان فرمائی ہے:

ہویا تم رسولیؐ تحفہ روز قمر دے فجری

باراں سے اکاسی آہا سن مبارک ہجری

(صفحہ 127)

1871-72ء میں طبع شدہ کتاب کا کاغذ ناقص، طباعت خراب اور نفس مضمون میں فاش غلطیاں ہیں۔ کتابت ایسی ہے کہ الفاظ کو پڑھنا دشوار ہے۔ سید محمود شاہ صاحب نے اصل نسخہ اپنے والد محترم سید علی اکبر شاہ صاحب (مرید خاص حضرت میاں صاحب) کے اُس نسخہ سے نقل کیا جو مطبوعہ 1871-72ء تھا۔ اسے بھی محکمہ اوقاف نے طبع کروایا جو غلطیوں سے مبراء نہیں ہے۔

49۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب، قصہ سخی خواص خان پر شین گھر مطبوعہ لاہور 1875ء (نمبرVT.1502) صفحہ38 انڈیا آفس لائبریری لندن۔ ملاحظہ ہو۔ 

J.F. Blumbardt, catalogue of the Library of India office, Vol.II, Part III, London 1902, P.23 اس کتابچے کو اپنی زیر نگرانی سید غلام غوث شاہ صاحب نے پنجاب الیکٹرک پریس گجرات سے 1964ء میں چھپوایا اور ملک غلام نور اینڈ سنز تاجران کتب جہلم نے شائع کیا۔ حضرت میاں صاحب نے اپنی غیر مطبوعہ کتب کی فہرست صفحہ 40 پر درج کی ہے۔ یہی فہرست کتب آپ نے اپنے ایک اور کتابچے، مرزا صاحباں ‘‘ صفحہ 113 پر رقم کی ہے (جس میں ’’سیف الملوک‘‘ کا بھی ذکر ہے)

قصے نوں فقیر ہے آکھ بیٹھا، ہر ہک کاسہ مدھ مست دا جے

دوہڑے بیت محمدا ہور چیزاں لیکھا کون کرے رست دا جے

(حضرت میاں محمد بخش صاحب) محمد فقیر، مرزا صاحباں، لاہور۔ پرشین گھر 1874ء، صفحہ 112، انڈیا آفس لائبریری لندن Vt.1503؛ ’’قصہ مرزا صاحباں‘‘ لاہور 1972، صفحہ 107 

رمزاں نال بھرپور کتاب ساری نکتہ سبخ بھی سمجھ نہ پایا سی

مہربانیاں مرد حقانیاں تھیں، بخرا ایس فقیر نے پایا سی

50۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب (محمد فقیر) قصہ مرزا صاحباں، لاہور پرشین گھر 1874، انڈیا آفس لائبریری لندن نمبر VT.1503، صفحہ 112، اس کتاب کو مولوی محبوب علی صاحب مرحوم نے جدید پنجابی میں مرتب کیا۔ اور میاں محمد زمان صاحب کی زیر نگرانی 1972میں استقلال پریس لاہور سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کے 118صفحات اور 1647 اشعار ہیں حضرت میاں صاحب کے احوال و آثار پر کام کرنے والے یاد رکھیں کہ 1865میں ’’سیف الملوک‘‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد آپ کی تمام سابقہ کتب کو مطبع خانوں نے ہاتھوں ہاتھ لے کر شائع کیا۔ 

51- Mian Muhammad Bahsh Sahib Panj Gang. Taba Jehlum, 1971, 18.

تیراں سوتے چار سی سن ہجری جدوں ایہ رباعیاں آئیاں نی

ہوسی فیض محمدا پڑھن والے جے تاں سائیاں دے من بھائیاں نی

’’ پنج گنج‘‘، ’’سسی پنوں‘‘ اور ’’باراں ماہ‘‘ کو محکمہ اوقاف آزاد کشمیر نے شائع کرا دیا ہے۔

52۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب (محمد فقیر) مطبع قادری لاہور 1881ء انڈیا آفس لائبریری نمبر VT.1509-0 یہ کتابچہ طباعت کے مراحل میں ہے ایک دوسری ’’سی حرفی‘‘ مطبوعہ 1872ء بھی انڈیا آفس کے ریکارڈ میں موجود ہے جو تلاش کرنے پر نہیں مل سکی۔ (VT.1549-1872)

53۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب ’’بیت محمد‘‘ مطبع کوہ طور لاہور، باہتمام نتھو بیگ 1868ء برٹش لائبریری۔ نمبر VT.1549 اس مختصر رسالے کو جلد شائع کر دیا جائیگا۔

54۔ حضرت میاںمحمد بخش صاحب ’’ہیر رانجھا‘‘ تصحیح، مولوی محبوب علی مرحوم، ناشر محکمہ اوقاف آزاد کشمیر، 1980ء سبط الحسن صاحب فرماتے ہیں کہ ’’قصہ ہیر رانجھا‘‘ ہماری نظر سے تلاشِ بسیار کے باوجود نہیں گزرا، لیکن آپ کی باقی رچنائوں کی طرح میاں صاحب کی یہ تخلیق بھی یقینا اہم ادبی دستاویز ہو گی، ڈاکٹر اختر امان جعفری کو بھی یہ رسالہ نہیں مل سکا۔ خدا جانے سبط الحسن صاحب نے کہاں تلاش بسیار فرمائی۔ حالانکہ یہ کتابچہ عام دستیاب تھا۔ میاں صاحب رسالہ کی تاریخ یوں لکھتے ہیں:

۱۳۱۵

’’تیراں سے تے پندراں سن ہجری، جدوں ایہ رباعیاں آئیاں نی

موضع پنجنی بیٹھ کے نظم کیتی جتھے بہت کماں بھِیڑاں پائیاں نی

داہے چھ تے اٹھ ہے عمر گزری، ہوشاں ہمتاں وچ خطائیاں نی

سبھ شرم محمدا پیرنوں جی، جیندے کرم اوتے آساں لائیاں نی‘‘

55۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب ’’ہدایت المومینن‘‘ بار اول اسلامیہ سٹیم پریس لاہور، 1912ء، صفحہ 105۔ خدا جانے ڈاکٹر اختر امان جعفری نے کہاں سے پڑھا کہ یہ کتاب پہلی مرتبہ ملک غلام نور اینڈ سنز نے جہلم سے شائع کی۔ (مقالہ غیر مطبوعہ صفحہ 430/431ف) ہمارے پاس مولوی محبوب علی کی تصحیح کردہ ناشر حافظ کرم داد کا شائع شدہ، پنجاب الیکٹرک پریس گجرات 1957ء کا ایڈیشن بھی موجود ہے۔ جس میں کتاب کا نام ’’ہدایت المومینن‘‘ہی ہے محکمہ اوقاف آزاد کشمیر نے دوبارہ مولوی محبوب کی نظر ثانی سے 1980ء میں اسے شائع کیا۔

56- Dr. Akhtar Aman Jaffri, Muqala Ghair Matboa Mazkura, 427. Sabt-ul-Hasan "Tadvin-e-No Saif-ul-Malook" "....."

57- Malik Muhammad Jehlumi Marhoom "Bostan-e-Qalandri" Siraj-ul-Mataba Jehlum, 1921.

"Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma) Mian Muhammad Bakhsh Academy, England, May 2008.

58۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب ’’تذکرہ مقیمی‘‘ (قلمی) مملوکہ، سید غلام غوث شاہ صاحب، (برگ اول)۔ قلمی نسخہ 335صفحات پر مشتمل ہے اور 21ذیقعد1274 ہجری تک کے واقعات درج ہیں۔

59۔ تذکرہ مقیمی۔ برگ 14-13، 21، حضرت بہاء شیر قلندربن سید علاء الدین بن فتح الدین بن صدر الدین بن ظہیر الدین بن شمس الدین بن سید مومن بن سید مشتاق بن سید علی بن سد صالح بن عبدالرزاق بن عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ۔ ملک محمد جہلمی صاحب نے ’’بوستانِ قلندری‘‘ میں ’’بہاء شیر قلندر‘‘ کی جگہ بہاول شیر قلندر بن سید فتح الدین لکھ دیا، بعد میں آنے والوں نے بلا تحقیق یہی نسب نامہ لکھ دیا۔ بہاء شیر قلندر کی وفات 973ہجری میں ہوئی۔ حضرت میاں صاحب نے 973ھ عبدالقادر ثانی اور 

پرسد چوں سال ’’رحلت از دلمحبوب خدا شدہ بفرمود‘‘

سے تاریخ 973ہجری نکالی ہے۔

سبط الحسن صاحب نے اپنی ’’تدوینِ نو‘‘ میں تذکرہ مقیمی کو سید احمد علی کی تذکرہ مقیمی کا دوسرا حصہ قرار دیا ہے اور ڈاکٹر ظہورالدین احمد صاحب کی کتاب ’’پاکستان میں فارسی ادب‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ ڈاکٹر ظہور الدین احمد صاحب کا خیال ہے کہ سید احمد علی نے شاہ محمد محکم الدین کی وفات تک کے کوائف درج کیے ہیں جس کا تکملہ حضرت میاں محمد بخش صاحب کی تذکرہ مقیمی ہے اسے سید احمد علی کی کتاب کا دوسرا حصہ قرار دنیا زیادتی ہے۔ سبط الحسن ’’تدوین نو‘‘صفحہ ا ط۔ ا ی‘‘۔

60- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 21

61- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 22

62- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 22

63۔ حضرت بہاء شیر قلندر صاحب کے بعد آپ کے صاحب زادے سید شاہ محمد نور نے علوم تلقین و ارشاد کی گدی سنبھالی اُنہوں نے 988ھ میں وصال فرمایا۔ سید محمد نور صاحب کے تین فرزند تھے، بڑے بیٹے شاہ ابوالمعالی نے اس کام کو آگے بڑھایا اور اکیس برس کی عمر میں انتقال کیا۔ حضرت میاں صاحب لکھتے ہیں، تاریخ رحلت ندارم خبر ’’(برگ 24) شاہ ابوالمعالی کے بعد آپ کے بڑے بیٹے حضرت شاہ محمد مقیم نے گدی سنبھالی۔ برگ 31-32۔ 

64۔ تذکرہ مقیمی، برگ 43، شیخ اشرف لاہور کی قبر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’قبرش بیرون قلعہ لاہور است متصل بازار غلہ فروشاں چناں بود‘‘

حضرت شاہ جمال لاہوری اور شاہ محمد مقیم صاحب کے مابین خطوط کے لیے ملاخطہ ہو ’’تذکرہ مقیمی ‘‘ برگ 30تا 33۔ حضرت میاں صاحب نے آپ کی تاریخ وصال واقف سِر وھاب شاہ محمد مقیم 1049ھ سے نکالی ہے۔ جب کہ حضرت شاہ محمد امیر صاحب نے 27 جمادی الثانی بروز جمعہ 1101ہجری وصال کیا۔ آپ نے تاریخ وفات یوں نکالی ہے:

’’عارفِ حق بود سید شاہ محمد امیر‘‘ 1101ھ (ایضاً۔ برگ 43)

65- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 43-44

66۔ ایضاً برگ 80تا 135تذکرہ کے آغاز میں حضرت میاں صاحب نے ’’سیف الملوک‘‘ کا مشہور شعر لکھا ہے۔

’’پیر میرا اوہ دمڑی والا پیرا شاہ قلندر

 

ہر مشکل وچ مدد کردا، دوہاں جہاناں اندر‘‘ 

(برگ 80)

67۔ ملفوظات حضرت سلطان محمود اعوانی ’’مقامات محمود‘‘ مؤلفہ نواب معشوق یار جنگ، جہلم 1964ء، تذکرہ حضرت پیر شاہ غازی صفحہ 43تا 48۔

68- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 83

69- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 83 to 86

70۔ بشیر مہدی ’’پنجاب میں مسلم حکومت کا زوال‘‘ (غیر مطبوعہ مقالہ) شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی لاہور، 1978ء

71۔ تذکرہ مقیمی برگ 131تا 133، آپ کی شہادت کے واقعات درج ہیں حضرت میاں صاحب نے درج ذیل شعر میں آپ کی تاریخ وصال نکالی ہے 

بالہام بمن گفت بر گو باہ

زھے پیرِ مرداں، حق پیر شاہ

ملک محمد جہلمی صاحب نے بوستان قلندری میں تاریخ وصال پر لکھا ہوا مذکورہ شعر بھی غلط لکھا ہے۔ڈاکٹر اختر امان نے بھی اصل کتاب دیکھے بغیر ’’بوستانِ قلندری‘‘ پر اعتماد کرتے ہوئے ’’دل بمن گفت برگو باہ ‘‘ لکھ دیا جس سے کسی بھی طرح 1163ھ کی تاریخ برآمد نہیں ہوتی۔

72- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 94

73- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 95

74۔ ایضاً برگ 124، حاجی بگا شیرنے قلندر صاحب کے حکم پر تین حج کیے، آپ نے دو شادیاں کیں۔ ایک عفیفہ کا نام خیر بانو جن سے آپ کے تین فرزند ہوئے جبکہ دوسری زوجہ عابدہ سے دو لڑکے اور تین یا چار لڑکیاں تھیں۔ آپ کی تاریخ وفات ’’تذکرہ ‘‘ میں درج نہیں۔ ایضاًبرگ 126

75- "Tazkara Muquami" (Urdu Tarjuma), 247

76۔ تذکرہ مقیمی برگ، 304 ’’در حکومت سِکھاّں کہ پیشہ غارت گردی بسیار بود‘‘ ہر چرن داس چہار گلزار شجاعی، قلمی نسخہ پنجاب یونیورسٹی لاہور، برگ 502ب۔

گنیش داس، ’’چہار باغ پنجاب‘‘ مخطوطہ پنجاب یونیورسٹی لاہور، برگ 132الف۔

پروفیسر محمد اسلم، سر مایہ عمر (ہیر وارث شاہ کی تاریخی اہمیت) لاہور 1977ء، 99،111

حضرت اُستاد نے گنیش داس کی تاریخ پنجاب ‘‘ مخطوطہ برٹش میوزیم لندن کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’سکھ قصبات کو لوٹ کر تباہ کر دیتے اور شہروں کو آگ لگا کر صفحۂ ہستی سے اُن کا نام و نشان تک مٹا دیتے تھے (صفحہ۔111)

Gpta , Hari Ram, "History of the Sikhs" Vol. I, II, III Calcutta, 1939, Studies in the later Mughal History of the Pnjab" Lahore, 1944.

Khushwant Singh, History of the Sikhs vol Ist; Prinction, 

77- "Tazkara Muquami" , 356

78۔ حضرت میاں محمد بخش صاحب سیف الملوک، ایڈیشن اول (66۔1865ء) مطبع مصطفائی لاہور اہتمام امیر الدین، اشعار نمبر 463تا465صفحہ 21

79- Sibat-ul-Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, ۱لف ل سے الف ف

80- as above

81- Sibat-ul-Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, 370

82- Sibat-ul-Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, الف ل

83۔ ہماری ناقص رائے میں( 1865تا 2018ء) سیف الملوک کی تدوین کے سفر میں قدیم ترین ایڈیشن کی مطابقت میں مطبوعہ نسخہ مرتبہ محمد شریف صابر سودھی صاحب مرحوم کا ہے (سفر العشق، سیف الملوک، سید اجمل حسین میموریل سوسائٹی، لاہور، فروری 2002ء) یہ درست ہے کہ مرتب موصوف کو سیف الملوک کا قدیم ترین ایڈیشن نہ مل سکا لیکن انہوں نے مولوی غلام نبی مالک مطبع یونیورسل کی شائع کردہ کاپی ایڈیشن 1286ہجری کو ہی اول ایڈیشن سمجھا ہے فرماتے ہیں کہ ’’ایہ کتاب 450 توں ودھ صفیاں دی ہووے گی کیوں جو ایہدا اتلا صفحہ نمبر 450اے جیہدے تے کتاب دی چھپائی دا سہپن ایہناں شعراں راہیں درج اے:

’’مطبوع ہو چکا، جب تاریخ کا کیا فکر

بلبل طبع کی بولی، ’’باغ ارم پہ واہ ہے‘‘

سال انیں کے طبع ہونے کا سنوابے ماہ وش

یک ہزار دو صدو ہشتاد سے اوپر تھے شش‘‘

(چیتا رہوے کہ جناب ضیغم صاحب نے سب توں پرانا نسخہ 1306 ہجری یا 1888ء دا لبھیا اے) قدیم ترین چھپی کتاب دے کاتب محمد عالم ساکن کھوڑی، حضرت جان محمد مولوی ساکن لاہور دے شاگرد سن ایہ کتاب مولوی غلام نبی مالک یونیورسل پریس جہلم دی فرمائش تے چھپی‘‘۔ صفحہ 522-523)

ہمیں محمد شریف سودھی صاحب سے بصد ادب اختلاف ہے دراصل مذکورہ نسخہ نقل ہے اُس نسخہ کا جو 1286 ہجری میں مطبع مصطفائی لاہور سے شائع ہوا۔ جس کی ایک کاپی انڈیا آفس لائبریری میں محفوط بھی ہے اور اسے ہمارے دوست سعید احمد صاحب نے بعینہ 2017ء میں راولپنڈی سے شائع کر دیا ہے۔ 1286ھ کا ایڈیشن دراصل اُس پہلے نسخہ کی ہو بہو نقل ہے جو حضرت میاں محمد بخش صاحب نے 1864-65ء میں لاہور میں خود قیام کر کے شائع کروایا۔ بعد میں حضرت مصنف کی اجازت عام دینے کی وجہ سے اسی اولیں ایڈیشن 1864-65کی کاپی خود مطبع مصطفائی نے کئی مرتبہ شائع کی۔ ان کی دیکھا دیکھی باقی مطبع خانے بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ ’’سیف الملوک‘‘ اپنی ترو تازگی، روحانی خوشبو اور سدا بہار ادبی صفحات کو جو نسخہ 1286 ہجری کی تاریخ کے نام سے ملا، اُن کے اپنے بیان کے مطابق اس کے آخری صفحہ کا نمبر 450 تھا اس سے ہی ساری حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ 1286ہجری میں شائع شدہ ایڈیشن کے ٹائٹل صفحہ پر ’’شریک صحت‘‘ شرف الدین ملک ساکن جہلم (ملک محمد ٹھیکدار جہلم) لکھا ہے۔ ملک محمد صاحب ٹھیکدار سیف الملوک کے ایڈیشن اول کے وقت خود ایک نوجوان طالب علم تھے وہ کیا صحت کرتے اس عظیم کلاسیکی کتاب کی جس کو سمجھنے کے لیے ایک زمانہ درکار ہے۔ غالباً حضرت میاں صاحب کی ملک محمد جہلمی صاحب سے محبت و مروت کے پیش نظر مطبع خانوں نے ملک محمد جہلمی صاحب کا نام استعمال کیا۔ ملک صاحب نے خود لکھا ہے کہ جب حضرت میاں صاحب سے اُن کی پہلی ملاقات ہوئی تو اُن کی عمر 16-17 سال تھی۔ ملک صاحب کی تاریخ پیدائش کا کہیں سے علم نہیں ہو سکا لیکن اُن کا انتقال 28مئی1923 کو ہوا (خود نوشت ڈائری سید علی اکبر شاہ صاحب مرید و خلیفہ حضرت میاں صاحب) آپ نے سیف الملوک کے ایڈیشن اول کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی نہ ہی کہیں لکھا ہے کہ وہ لاہور میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ اس کی کتابت و اشاعت کے سلسلہ میں کبھی بھی گئے۔ جن کتابچوں کی انہوں نے حضرت میاں صاحب کے حکم پر کتابت کروائی، اُن کا ذکر سوانح حیات میاں محمد صاحب 1914ء کے سیف الملوک کے ایڈیشن میں کر دیا ہے۔ مصنف خود فرما رہے ہیں کہ لاہور میں قیام کر کے تین ماہ آپ نے کتابت کی نگرانی فرمائی تو پھر یہ نسخہ بطور ایڈیشن اول شائع ہونا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اگر یہ پہلا ایڈیشن مان بھی لیا جائے تو لاہور اور جہلم سے بیک وقت 1869میں دونوں اشاعتیں کیسے ممکن ہوئیں جس میں دونوں کے صفحات بھی مختلف ہوں لیکن مواد اور کتابت ایک جیسی ہو۔

84۔ ڈاکٹر محمد باقر صاحب مرحوم و مغفور سے سلسلہ ملاقات و مراسلت تادم وفات جاری رہی۔ ایم اے تاریخ کے امتحان کے دوران میرے تحقیقی مقالہ ’’پنجاب میں مسلم حکومت کا زوال‘‘ میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے ہی منظوری دی اور اسے بے حد سراہا۔

85- Bashir Mehdi. "Sahib-e-Saif ul Malook ky Asar o Afqaar", Almaaraf, Lhr.

86- Sibat-ul-Hasan, Tadven Saif-ul-Malook, الف۔م

87۔ سیف الملوک میسرز جوت سنگھ پبلشرز لوہاری دروازہ لاہور۔ مضمون نگار قادری صاحب نے اسے پہلا ایڈیشن قرار دیا۔ اس کے سرورق پر ایک کارٹون نما تصویر بنی ہوئی ہے جس میں حضرت مصنف کو ایک کتاب کسی نا معلوم نواب یا راجہ یا والیٔ ریاست کو پیش کرتے دکھایا گیا۔ قادری صاحب کا خیال ہے کہ یہ نامعلوم فلمی کارٹون دراصل نواب بہاولپور محمد صادق صاحب چہارم تھے۔ بعض سوانح نگار اسے مہاراجہ جموں و کشمیر سے منسوب کرتے ہیں بعض احباب نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ حضرت میاں صاحب نے جب یہ تصویر دیکھی تو لاہور ہائی کورٹ میں پبلشرز کے خلاف مقدمہ کردیا۔ حقیقت بات یہ ہے کہ یہ سب محض داستانیں ہیں۔ حضرت میاں صاحب ایک تارک دنیا فقیر تھے، اُنہیں کسی دربار سے کیا لینا دینا، آپ نے تو اُن پبلشرز کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں کی تھی جنہوں نے آپ کی کتاب سے لاکھوں کمائے بھی اور کتاب کی طباعت کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔

88۔ ’’سیف الملوک‘‘ مرتبہ، ڈاکٹر محمد باقر، پنجابی ادبی اکیڈمی لاہور 1963ء، سرورق پر لکھا ہے:

 ’’میاں محمد صاحب دے اپنے کیتے ہوئے نسخے دی نقل‘‘

89۔ نادر علی خان ’’ہندوستانی پریس 1556-1900، اُتر پردیش اکادمی لکھنو، 1990ء فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ ’’مطبع مصطفائی، محلہ کشمیری بازار، مالک امیر الدین کتب فروش اجرائے پریس 1865ء ‘‘ صفحہ 293

تاریخ لاہور کے مصنف کنھیا لال کپور رقمطراز ہیں کہ ’’لاہور میں اب چھاپے خانے بکثرت ہیں سکھوں کے وقت کوئی چھاپے کے نام سے بھی واقف نہیں تھا۔ سب کتابیں قلمی تاجران کتب فروخت کرتے تھے بڑا تاجر لاہور میں محمد بخش صحاف تھا اور اس کے ہاں بہت سے کاتب لکھنے کے لیے موجود رہتے تھے۔ ہزاروں روپے کی تجارت ہوتی تھی۔ جب انگریزی زمانہ آیا، سب سے پہلے لاہور میں مطبع کوہ نور 1850ء میں منشی ہر سکھ رائے نے جاری کیا۔ کنھیا لال کپور نے گیارہ پریس اور مطبع خانوں کا ذکر کیا ہے اس میں دسویں نمبر پر مطبع مصطفائی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس مطبع کا مالک امیر الدین ککے زئی تھا جو اِسی سال مر گیا ہے۔ اس کے بعد مسمی ہیرا اس کا بھانجا مطبع کا کام انجام دیتا ہے۔ــ‘‘

کنھیالال کپور۔ تاریخ لاہور، مرتب کلب علی خان فائق، مجلس ترقی ادب لاہور، صفحہ 87۔ مولوی فقیر محمد نے مطبع سراج المطابع 1885ء میں اجراء کیا (صفحہ 406)

1865ء میں جب مطبع مصطفائی لاہور میں اجراء ہوا تو حضرت میاں صاحب بھی لاہور تشریف لائے، 1863ء میں کتاب مکمل کرنے کے لیے بعد آپ نے مذکورہ کتاب اپنے مرشد گرامی حضرت سائیں غلام محمد صاحب اور بڑے بھائی بہاول بخش صاحب سے بھی اصلاح لی۔ ممکن ہے دیگر ہم عصرشعراء کو بھی مسودہ دکھایا ہو۔ 1865ء میں اس لازوال مثنوی کو شائع کرنے کا اکرام امیر الدین مالک مطبع مصطفائی کے حصے میں آیا۔ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی اور 1870ء تک مطبع مصطفائی نے اس کو کئی بار شائع کیا۔

90۔ سوانح حضرت میاں محمد بخش صاحب ’’سیف الملوک‘‘ ملک غلام نور اینڈ سنز جہلم سنی ندارد، صفحہ 501تا 543

91۔ سیف الملوک ناشر محکمہ اوقاف آزاد جموں و کشمیر 1991، دبیاچہ مولوی محبوب علی صاحب، صفحہ 2 نظامت اعلی اوقاف نے علی الترتیب 1991,1978,1965 اور 2013متعدد ایڈیشن سیف الملوک: شائع کروائے۔ 2013 کے ایڈیشن میں ڈاکٹر اختر امان جعفری صاحب نے ’’رومی کشمیر حضر ت میاں محمد بخش صاحب (احوال و اثار) 32صفحات پر مشتمل آپ کی سوانح وتعارف کتب کراتے ہوئے سیف الملوک کے پہلے ایڈیشن 1288ھ اور 1884میں دوسری مرتبہ اشاعت کا ذکر فرمایا ہے یہ نہیں لکھا کہ یہ دونوں ایڈیشن کہاں، کس مطبع سے اور کس پبلشرر نے شائع کئے (صفحہ 21)

92۔ دیکھیئے ہماری زیر طبع کتاب ’’سیف الملوک کے مشکل مقامات‘‘

93۔ سیف الملوک، ترتیب، سیف الملوک، عزیز پبلشرز لاہور 1984؛ سودھی محمد شریف صابر، سفرالعشق، سیف الملوک، اجمل حسین میموریل سوسائٹی، لاہور، فروری 2002؛ چودھری محمد اسمعیل چیچی، سفرالعشق سیف الملوک، تصیح شدہ نسخہ مع اعراب و فرہنگ، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر محکمہ اطلاعات و ثقافت، حکومت پنجاب، 2018؛ یاد رہے کہ راقم الحروف نے برطانوی ہندوستان کے عموماً اور پاکستان بننے کے بعد خصوصاً تقریباً ہر مطبوعہ سیف الملوک کا مطالعہ کیا ہے ان میں تراجم بھی ہیں اور انتخاب سیف الملوک بھی؛ تراجم میں بطور مثال دو دانشوروں کا ذکر عام کیا جاتا ہے اولاً سرور مجاز ہیں (سدا نہ صحبت یاران، فنون پبلشرز لاہور، 1980) اور ثانیاً ضمیر جعفری (من میلہ، لوک ورثے کا قومی ادارہ، اسلام آباد، مئی 1980) سرور مجاز اور ضمیر جعفری دونوں نے حضرت میاں صاحب کے لفظ ’’گھٹ‘‘ کا ترجمہ ’’کم‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت میاں صاحب کا گھٹ سے مراد ’’وجود‘‘ ہے

’’سدا سکھالے اوہو بھائی، عشق جیہناں گھٹ آیا

مرہم پھٹ اوہناں دے بھانے ہکو جیہا سُکھایا‘‘

سرور مجاز صاحب ترجمہ فرماتے:

’’سکھ میں رہیں سدا وہ بھائی جن کو عشق نہ لاگے

زخم اور مرہم ایک جیسے ہیں نادیدوں کے آگے‘‘

جبکہ ضمیر جعفری صاحب کا ترجمہ ہے:

’’سدا سُکھی وہ لوگ جو حصہ عشق سے کم کم پائیں

مرہم تو مرہم ہے اُن کو زخم بھی راس آ جائیں‘‘

حضور میاں صاحب کے ایک اور شعر کو ضمیر جعفری صاحب نے یوں قتل فرمایا۔

’’کر کر یاد (سجن نوں کھاندے، بھن بھن جگر نوالے

سربت وانگ پیارے ہتھوں، پیٹون زہر پیالے‘‘

ضمیر جعفری صاحب لکھتے ہیں:

’’یاد کریں محبوب کو پل پل قاش جگر کے

سربت سمجھ کے پی جاتے ہیں زہر پیالے بھر کے‘‘

اصل پنجابی شعر میں بھن بھن جگر نوالے ہے، جعفری صاحب نے بھن بھن کو پل پل ترجمہ کر دیا

سرور مجاز صاحب نے لوک فنکاروں کے من گھڑت اشعار کو سیف الملوک کے خدا جانے کون سے نسخہ سے نقل کر دیا۔مثلاً

1۔ آئی جان شکنجے اندر جوں بیلن میں گنا

ایسے میں گر روک لے اس کو پھر میں مانوں گنا

2۔ مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے جو چاہے تو ڈھا دے

توڑ نہ ہرگز دل لوگوں کا، دل میں خالق جاگے

یہی حال باقی دانشوروں کا ہے جیہنوں نے ’’سیف الملوک‘‘ کے تراجم معانی اور فرہنگ لکھے ہیں۔

94- Iqbal Slahudin(Muratb). Saif ul Malook, ک سے ق

95- Muhammad Sharif Sabir(Muratb). Saif ul Malook, 520-521

96۔ ایضاً، صفحہ 522-524 یہی خیال ہمارے دوست پروفیسر سعیداحمد صاحب کا ہے کہ ’’سیف الملوک‘‘ کے شائع ہونے تک کتابت وغیرہ کے مراحل سے گزرنے میں چھ برس لگے‘‘ پروفیسر سعید احمد صاحب سے بجا طور پر سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر چھ سال کے طویل عرصہ میں کتابت ہوتی رہی تو لامحالہ ایک ایک لفظ میاں صاحب نے خود دیکھا ہو گا پھر 1869ء کا نسخہ من و من تسلیم کر لیا جانا چاہیے اس پر تحقیق مزید کی ضرورت کیا ہے؟ اس میں برتے گئے الفاظ اپنی طرف سے تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو۔ کتابت کی اغلاط کا امکان مانا جا سکتا ہے وہ بھی ہماری رائے میں پورے نسخے ہیں گنتی کے چند مقام پر ہے جس کی نشان دہی 1865 کے ایڈٹ شدہ نسخے میں ہمارے شیخ محترم سید محمد محمود شاہ صاحب نے خود کر دی ہے۔

97۔ چودھری محمد اسمعیل چیچی، تحقیق و تدوین، سیف الملوک، صفحہ 32-33 آپ نے گروپ ’’الف‘‘ میں پانچ شیخ سراج الدین تا شیخ برکت علی اینڈ سنز لاہور 1936ء اور گروپ ب میں مولوی غلام نبی مالک یونیورسل پریس جہلم 1898 تا انور مسعود، 2009 کو منتخب کیا ہے اور کسی پر بھی اعتماد نہیں کیا۔

98- As Above.  26

99- As Above. 27-28

100- As Above. 28-29

101- As Above. 29

102- As Above. 32 

103- As Above. 36-37

104- As Above. 37-38

105- As Above. 40

106- As Above. 41-68

107- As Above. 69-80 

چودھری صاحب نے اپنی تدوین و تحقیق میں سیف الملوک کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے آغاز سے بھی اشعار کے الفاظ کو من چاہے الفاظ میں بدل دیا ہے جن کی تشریح کے لیے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔ چودھری صاحب نے حضرت میاں صاحب کے عنوانات کا تو پنجابی میں ترجمہ کر دیا ہے اور وہ بھی یا تو نا مکمل ہے یا بالکل غلط اور خود آبجناب نے پنجابی کے معانی اُردو زبان میں دیئے ہیں اسی طرح سیف الملوک کے مشکل مقامات کو مزید الجھا دیا ہے۔ مثلا شعر نمبر 472 (یہ شعری ترتیب بھی چودھری صاحب کی ہے) ’’روگ نہ رنڈی ور نوں‘‘ کو ’’روگ نہ رنڈے ور‘‘ پڑھ کر اس کا اردو معانی رنڈے ور بمعنی ’’فرد واحد‘‘ لیا ہے حالانکہ حضرت میاں صاحب نے ’’رنڈی ور‘‘ لکھا ہے کیونکہ رنڈی یا بیوہ عورت کو کسی وریا رشتہ کی تلاش کا نہ تو روگ ہوتا ہے نہ ضرورت چودھری صاحب کو بے شمار مقامات پر خود لفظ سمجھ نہیں آئے یا آپ نے غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ایسے تمام مقامات پر انہوں نے اشعار کو اپنی سمجھ کے مطابق درست فرما دیا ہے، مثلاً شعر نمبر 4166 پورا ہی تبدیل فرما دیا ہے شعر یوں ہے:

نین کٹاراں پہواں کماناں نک خنجر بے دستے

نال سیاں دے کھوہ گیاں دے کوٹھی ملن رستے

جبکہ چودھری صاحب لکھتے ہیں:

’’بھواں کماناں نک جیوں خنجر سوہنے نین کٹاراں

رل مل سیاں، پیلاں پاون ہو ہو صدقے واراں‘‘

ایسے بے شمار مقامات کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ’’تدوین و تحقیق سیف الملوک‘‘ کے نام پر اس شاہکار کتاب کی بدترین تحریف ہے۔

108- Saif-ul-Malook, Edition Awal, 192, 370

109۔ سبط الحسن ضیغم، تدوین ملاخطہ ہو دبیاچہ

پروفیسر سعید احمدصاحب، سیف الملوک عکسی ایڈیشن 1286ہجری، تعارف کتاب، صفحہ اول۔ نیز دیکھیں پروفیسر صاحب کا کتابچہ حضرت میاں محمد بخش ایک تعارف، حصہ اول، آس امید پبلی کیشنز، روالپنڈی، سن ندارو، صفحہ 22۔

110- Mian Muhammad Bakhsh- Saif-ul-Malook, Edition 1869, India Office Library London, No.VT.1497

J.F. Blumhardt, Catalogue of the Library of India office, Vol II part III London, 1902, page-25

اس ایڈیشن کو پہلا ایڈیشن اس لئے بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ حسب فرمائش میاں شرف الدین ذیلدار ساکن موضع لویرا اور ملک (محمد جہلمی) کو پبلشرز قرار دیتا ہے۔ ملک صاحب صرف 17-16 سال کے تھے جب ہمراہ والد صاحب کے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت سیف الملوک شائع ہو چکی ہو گی۔ حضرت میاں صاحب نے خود اسے 33برس کی عمر میں مکمل کیا وہ اس کتاب کی صحت میں کسی نوجوان بچے کو کیونکر شامل فرماتے، میاں شرف الدین جہلم کے قریب بیلہ کے رہائشی تھے او حضرت میاں صاحب کے خادم تھے۔ ملک محمد صاحب مزید رقمطراز ہیں کہ جب اُن کی ملاقات حضرت میاں صاحب سے ہوئی وہ نادان عمر کے تھے اور میاں فضل صاحب سے گلستان پڑھتے تھے۔ اگر یہ دو حضرات شریک صحت رہے ہوتے تو 1869 کے ایڈیشن میں جن اشعار کو حضرت میاں صاحب نے حاشیہ میں لکھا تھا وہ اپنے مقام پر لکھ دیتے نیز صفحہ نمبر 3پر ’’بنام حضرت سرکار پیر پیرا شاہ غازی‘‘ کا اضافہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ایڈیشن بہت بعد کا ہے۔ 1865 کے ایڈیشن یا مابعد تمام ایڈیشنز میں یہ عنوان نظر نہیں آیا۔ سیف الملوک 1903، 1905،1909،1910 اور 1918 کے ایڈیشن انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہیں اور راقم الحروف ان سے استفادہ کر چکا ہے۔ ان تمام ایڈیشنز پر ملک محمد صاحب کا نام نامی کسی نہ کسی شکل میں نظر آتا ہے۔ 1905, 1903 اور 1914کے ایڈیشنز میں حضرت میاں صاحب کی سوانح آخر کتاب میں موجود ہے۔ 1903 کا ایڈیشن رائے صاحب منشی گلاب سنگھ تاجران لاہور نے مفید عام پریس سے شائع کیا۔ اس کے 372 صفحات ہیں اور قطعۂ تاریخ سیف الملوک منشی کریم صاحب نے ’’نغمۂ عندلیب‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ 1905 کا ایڈیشن مطبع سراج المطابع جہلم سے شائع ہوا۔ اس کے کل 452صفحات ہیں صفحہ 447پر فقیر محمد صاحب مالک سراج الاخبار کا نوٹ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اولا یہ کتاب شائع ہوئی تو مصنف نے فیض عام کی خاطر چھاپنے کی اجازت عام دے دی جس سے بے شمار مرتبہ چھپ کر ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی لیکن اہل مطابع نے کتاب کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ چنانچہ 1898میں مصنف نے یونیورسل پریس جہلم کو کتاب کو بشرط عمدگی چھپائی کے وعدہ پر رجسٹری کرا دی۔ لیکن یہ چھپائی کاغذ اور گندی کتابت پر مصنف نے کتاب مستقل فقیر محمد صاحب کو رجسٹری کرا دی۔ میاں صاحب نے ہر ایک کاپی کی صحت اور مقابلہ کا خود زمہ لیا۔ جو کاپی لکھی جاتی وہ مقابلہ و صحت کے لیے میاں صاحب کے پاس بھیجی جاتی میاں صاحب فرصت کے وقت بڑے غور سے اُسے پڑھتے اور جہاں کسی کوئی غلطی کتابت کی پاتے پنسل سے نشان فرمادیتے تھے جب کتاب چھپی تو میاں ’’صاحب نے بہت پسند فرمائی ‘‘(صفحہ 448)۔

اس مذکورہ ایڈیشن کے صفحہ 450-1 پر ملک محمد صاحب کی تقریظ طبع زاد موجود ہے جبکہ ایڈیشن 1909-10 کے صفحہ 460 مذکورہ نوٹ فقیر محمد صاحب کا مندرج ہے۔ صفحہ 445تا 448 ملک محمد صاحب نے حضرت میاں صاحب کی سوانح عمری لکھی ہے اور 456-57 پر ایک مرثیہ بھی لکھا ہے تاریخ کتاب 1909/1327ھ بھی ملک صاحب نے ہی لکھی ہے۔ صفحہ 454 پر رقمطراز ہیں کہ ایک دفعہ خاکسار کو (میاں صاحب نے) تحفہ رسولیہ اور تحفہ میراں طبع کرانے لاہور بھیجا‘‘ اس سے مترشع ہوتا ہے کہ اگر 1286ھ 1869-70 کے ایڈیشن میں آپ لاہور جاتے یا اُس کی صحت میں حصہ لیتے تو خود ہی لکھ دیتے حالانکہ خود لکھتے ہیں کہ 18ربع الاول 1296ہجری مطابق 1879ء خط حضرت میاں صاحب نے ملک صاحب کو لکھا تھا گویا اُس وقت یقینا ملک محمد جہلمی صاحب جوان ہو چکے تھے۔ سیف الملوک 1914ء ایڈیشن میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب نے اُنہیں لاہور میں کتاب تحفۂ میراں و شیریں فرہاد طبع کرانے بھیجا جہاں انہیں 4ماہ رکنا پڑا (صفحہ477) تحفہ میراں کا یہ ایڈیشن اول انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے (No.VT-1809Tف) یہ ایڈیشن اول 1296ہجری مطابق 1879ء امیر الدین مطبع مصطفائی لاہور سے شائع ہوا۔ اس پر مصنف کا نام میاں صاحب درج ہے اور ملک محمد جہلمی نے اپنا نام ملک ساکن جہلم شاگرد مصنف لِکھا ہے (تحفہ میراں ایڈیشن اول مطبع مصطفائی لاہور 1879، صفحہ 69) یہ کتاب جو 1857-58میں مکمل ہوئی تھی اس کو 1879سے پہلے شائع نہیں کیا جا سکا کتاب کے آخر میں تقریظ ملک محمد صاحب نے لکھی ہے اور خود کو حضرت صاحب کا شاگرد لِکھا ہے۔ اگر ملک محمد صاحب کسی بھی وقت سیف الملوک کے شریک صحت رہے ہوتے تو جو اڈیشنز اُن کے زیر نگرانی چھپے وہ تو کم از کم ایڈیشن اول کے مطابق ہوتے 1286ہجری کے چھاپہ شدہ ایڈیشن کے اگر وہ شریک صحت رہے تھے تو جو ایڈیشن آپ نے بعد میں چھپوائے وہ کیوں مختلف ہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ 1865تا 1870ملک صاحب کسی بھی سیف الملوک کے ایڈیشن کے نہ تو پبلشر تھے نہ ہی شریک صحت۔

111۔ سوانح عمری حضرت میاں محمد بخش صاحب ایڈیشن 1914 ، صفحہ 510 ایڈیشن 1905تا 1914کا اگر مطالعہ کیا جائے تو حیران کن بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ملک محمد صاحب نے نسخہ اول 1865تا مابعد کہیں بھی اپنے مرشد مصنف حضرت میاں صاحب کے الفاظ کی پیروی کرنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ نہ ہی انہوں نے اُس حاشیہ کا اِلتزام کیا جو مصنف نے خود اپنے قلم سے کئی مقامات پر کتابت کرواتے وقت اضافہ فرمائے یا لکھوائے اور نہ ہی خود ملک صاحب نے کہیں اشعار کی تشریح کرنے کی سعی کی۔ 

112۔ ملک محمد صاحب نے آغاز کتاب بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا ہے جبکہ دوسرا عنوان سِرے سے خدف کر دیا ہے۔ سیف الملوک ایڈیشن 1914، صفحہ 2-1،

113۔ ایضاًصفحہ 13، دیکھیں ایڈیشن اول صفحہ 12، ایڈیشن 1869، صفحہ 12یہ ہی حال سیف الملوک مطبوعہ یونیورسل پریس جہلم 1898کا ہے صفحہ 15، اگلے شعر میں ’سل خوشابی‘ کو ’سبل خوشابی‘ لکھا ہے۔

114۔ چودھری اسمعیل چیچی، سیف الملوک، صفحہ 106 ہٹے بمعنی تھک جانا، شعر نمبر 1016۔ 

115۔ ایڈیشن اول 1865۔ صفحہ 68 شعر 1415تا 1422اسی طرح شعر 1450تا 1453کو مصنف نے ’’مناہے‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے صفحہ 61۔

116۔ ایضاً،64۔

117۔ ایضاً، شعر نمبر 1686۔ ایڈیشن اول میں مصنف نے پنجابی الفاظ کی تشریح فارسی زبان میں کی ہے۔ یہ ہی ذمہ داری اگرملک محمد صاحب شاگرد و مرید حضرت مصنف نے خوش اسلوبی سے نبھائی ہوتی تو سیف الملوک جیسی کلاسیکل ادبی کتاب کا وہ حال نہ ہوتا جو تدوین و تحقیق مزید کی آڑ میں موجودہ دور کے بزعم خویش اسکالرز نے کیا۔

 

 

Author(s):

Pakistan

Details:

Type: Article
Volume: 42
Issue: 1
Language: Urdu
Id: 64538cd643ff1
Pages 81 - 136
Discipline: Y
Published November 25, 2022

Copyrights

Punjab University
Creative Commons License
This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.